17 دسمبر کو ہونے والے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران دھاندلی کے بعد سربیا میں احتجاجی تحریک مزید مضبوط ہوئی ہے۔ جمعہ کو مظاہرین نے دارالحکومت کی سڑکوں کو بلاک کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا۔
جمعے کو حزب اختلاف کے سینکڑوں کارکنوں نے بلغراد کی سڑکوں کو 24 گھنٹے تک بلاک کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ ان کے اقدامات سربیا کے پارلیمانی انتخابات میں دائیں بازو کی پارٹی کی جیت کے ردعمل میں ہیں۔ مظاہرین کسی بھی ایسی سرگرمیوں کی شدید مذمت کر رہے ہیں جس سے انتخابی عمل کو داغدار کیا جا سکتا ہے۔
تو کیا ہوا؟
مرکزی اپوزیشن اتحاد، سربیا اگینسٹ وائلنس کا دعویٰ ہے کہ آس پاس رہنے والے بوسنیائی ووٹروں کو 17 دسمبر کو بلغراد میں غیر قانونی طور پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی۔ آرگنائزیشن فار سیکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یوروپ (OSCE) جیسی تنظیموں کے بین الاقوامی مبصرین نے بھی ووٹنگ کے عمل کے دوران "بے ضابطگیوں" کی اطلاع دی ہے جس میں "ووٹ خریدنے" اور "بیلٹ باکس بھرنے" کی مثالیں شامل ہیں۔
سرکاری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ سربیا کے صدر الیگزینڈر ووکس ونگ نیشنلسٹ پارٹی (SNS) نے 46% ووٹ حاصل کیے جبکہ اپوزیشن اتحاد نے 23.5% ووٹ حاصل کیے ہیں۔ اس کے بعد سے مختلف مظاہرے ہوئے جن میں مظاہرین نے دارالحکومت میں سڑکیں بلاک کر کے اس الیکشن کو کالعدم قرار دینے اور انتخابات کا مطالبہ کیا۔
اتوار کی شام کے واقعات کے دوران مظاہرین نے بلغراد کے سٹی ہال میں کھڑکیوں کے شیشے توڑ کر داخل ہونے کی کوشش کی۔ بالآخر پولیس فورسز کے ذریعے پسپا کر دیا گیا۔
مزید برآں بلغراد کی عدالت نے قرار دیا ہے کہ جن چار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے ان کو "عوامی اجتماعات کے دوران برتاؤ" میں ملوث ہونے کی وجہ سے تیس دنوں کے لیے حراست میں رکھا جائے گا۔
مزید برآں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس وقت چھ دیگر افراد ان الزامات کے تحت گھر میں نظر بند ہیں جن میں سے ایک کو رہا کر دیا گیا ہے۔ جن سات مظاہرین کو گرفتار کیا گیا انہوں نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ کیا ہر ایک کو 20,000 سربیائی دینار (171 یورو) جرمانے کے ساتھ چھ ماہ کی معطل سزا دی گئی ہے۔